SlideShare une entreprise Scribd logo
1  sur  8
Télécharger pour lire hors ligne
وفات پر اعتراض کا جواب 
راشد علی اور اس کا پیر اپنی ’’ بے لگام کتاب‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ 
’’موت کا شکنجہ :۔ 
’’بالاخر مخالفین کی ہزرہ سرائیوں سے تنگ آکر مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کی کہ اگر جھوٹے  فتری ہیں و 
اللہ تعالیٰ انہیں ہیضہ اور طاعون سے موت دے دے۔ چنانچہ یہ دعا مقبول با بار ہ ای د ی او اور ا سال با بھی گزرنے نہ پایا کہ 
مرزا صاحب بآد حسرت ویاس اپنی منہ مانگی موت یعنی ہیضہ کا شکار ی  کر چل بسے۔ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ی  سکا۔ زبان 
سے جو آخر الفاظ نکلے وہ یہ تھے 
’’ میر صاحب )مرزا صاحب کے خسر( مجھے وبااو ہیضہ ی  گیا ہے۔ 
‘‘) )حیاتِ ناصر مرتبہ شیخ یعقوب علی قادیانی صفحہ ۱۱۱ 
یہ بھی حسبِ معمول با راشد علی اور اس کے پیر کی خیرہ سر ہے جو انہیں بار بار جھوٹ کی لعنت کا مورد بناتی ہے۔ 
i:۔ وصال با کا سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس درد اور کرب کے ساتھ اسلام پر حملوں کے دفاع میں مصروف 
تھے۔ اس کے لئے دن رات کی علمی محنتِ شاقّہ ، آرام میں کمی اور غذا کی طرف سے لاپرواہی کے نتیجہ میں آپ کو اصابی  مزوور 
کی وجہ سے اسہال با کا مرض اکثر ی  جاتا تھا ۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جس صبح حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی وفات ی او ہے اس سے 
ملحقہ کئی دن ی کہ وفات سے بیس گھنٹے قبل بھی 
ّٰ 
حت 
آپ مسلسل دن رات تحریر وتقریر میں مصروف رہے آپ نے لای ر میں 
صاحبِ علم افراد کے سامنے ا طویل تقریر فرمااو ۔اس کی وجہ سے آپ کو اصابی  مزوور لاحق ی او پھر رات کو ای  وجہ سے 
ور کا بھی تعلق 
ُ 
اسہال با بھی آئے۔ اس کیفیت کا ہیضہ سے د نہیں۔ نہ ہی روایات میں کاروںوں کی طرف سے اس کا ذکر ملتا ہے۔ 
حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی صرف ا روایت ہے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مکذ بین ایسے ر 
میں پیش کرتے ہیں کہ گویا آپ کی وفات کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے دعوّٰ میں صادق نہ تھے۔
حقیقتِ حال با یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ واقعۃً حضرت مسیح موعود علیہ 
السلام کو وبااو ہیضہ ی  گیا تھا بالکل غلط بات ہے۔ اس فقرے کا مطلب و صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 
نے حضرت میر صاحب سے استفسار کیا کہ ’’ مجھے وبااو ہیضہ ی  گیا ہے ؟ ‘‘ اور محض پوچھنے کا مطلب گزگز یہ نہیں ی تا کہ واقعۃً وہ 
بات ی  بھی گئی ی ۔ 
ایسی حالت میں جبکہ اصابی  مزوور ی  اور اس کی وجہ سے اسہال با کی مرض بھی لاحق ی  و نقاہت بے حد بڑھ جاتی ہے۔ اس 
پر مستزاد یہ کہ سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے حالت دِگر گوں ی  و تاث ر خص  سے یہ وع  رھنا  کہ اس کے ذن  میں ا حت 
مند خص  کے حت مند ذن  کی طرح گز بات پور تفصیلات کے ساتھ مستحضر ی  ، انصاف کے خلاف ہے۔ چنانچہ آحضرتت 
صلى الله عليه وسلم پر بھی ا مرض کی وجہ سے ایسا وقت آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ 
ی وما ہفعل 
لش 
یفعل ا 
ّ 
ل الیہ ان 
ی 
ّ 
خ 
لت 
ّ 
ان 
)بخار ۔ کتاب بدء الخلق ۔ باب فی ابلیس وجنودہ ( 
ترجمہ :۔ آپ کو خیال با گذرتا تھا کہ آپ نے گویا کواو کام کیا ہے حالانکہ آپ نے ایسا کیا نہ ی تا تھا۔ 
)یہاں خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ حضرت امام بخار اس حدیث کو ابلیس اور اس کے لشکر کے باب میں لائے ہیں۔ شا 
نظرِ کشفی میں انہیں ان لوگوں کا علم ی  گیا ی  کہ ابلیس اور اس کے چیلے کون ہیں۔( 
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ا ایسے فقرہ پر راشد علی اور اس کے پیر کا بغلیں بجانا بعینہ ای  طرح ہے جس 
طرح آحضرتت صلى الله عليه وسلم کے بعض ری  عوارض پر تشرقین ن نے اہزاءاء ے ہ ہیں۔ 
اس فقرے میں ’’ وبااو ہیضہ ‘‘ کا ذکر ہے۔ جبکہ تاریخی ریکارک شاہد ہے کہ اپریل ، مئی ۱۰۹۱ ء میں پنجاب میں یہ وبا تھی ہی 
نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی تاریخی ریکارک سے ثابت ہے کہ لای ر میں اس وجہ سے کواو موت نہیں ی او تھی۔ حضرت مسیح موعود 
علیہ السلام میں بھی ہیضہ کی کواو علامت موجود نہ تھی ۔اس لئے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معالج م جر ڈ کاروں 
در لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج م لای ر نے آپ کی وفات کے سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ کی وفات اصابی  
ِ 
س اسہال با کی یمارر سے
ی او ہےدرلینڈ کی 
ِ 
ءء اور کاروں آپ کے معالج م تھے یا ارد گرد تھے وہ ب  کاروں س 
۔ چنانچہ اس وقت تنے  بھی ابّ رائے سے تفق 
تھے کیونکہ ا س کے علاوہ سچااو اور تھی ہی کواو نہیں۔ 
جار کیا اس میں اس نے تحریراً یہ تصدیق کی 
ی فی کی ٹ 
ٹ 
م سِول با سرجن لای ر نے جو سر 
ھ 
گ 
ّ 
ی 
ّ 
کن 
ای  طرح کاروں کہ مرزا صاحب 
کی وفات عام اسہال با کی شکایت سے ی او ہے ۔ اس اسہال با کی وجہ اصابی  مزوور تھی نہ کہ ہیضہ۔ 
اس پر مز گواہی کے سامان خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمائے کہ جب آپ کی نعش مبارک ،قادیان لے جانے کے لئے لای ر 
کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی اور ڑ میں رکھی گئی و راشد علی اور اس کے پیر کی ماش کے لوگوں نے محض ر یداا کرنے کے 
لئے یہ جھوٹی شکایت اسٹیشن ماسٹر کے پاس کی کہ مرزا صاحب ہیضہ کی وجہ سے فوت ی ئے ہیں۔ چونکہ وبااو مرض کی وجہ سے 
ہیضہ سے وفات پانے والے کو دوسرے شہر لے جانا قانوناً منع تھا اس لئے اسٹیشن ماسٹر نے نعش ھجواانے سے انکار کر دیا ۔اس 
دکھایا و پھر اسٹیشن ماسٹر کو 
ی فی کی ٹ 
ٹ 
کے ا صحای ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے سِول با سرجن کا سر 
ؑ 
پرآپ حقیقتِ حال با کا علم ی ا کہ 
یہ شکایت کرنے والے کہ حضرت مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ی او ہے ، جھوٹے  ہیں۔ چنانچہ اس نے اجازت د اور آپ کی نعش مبارک قادیان لااو گئی۔ یہ ب  واقعات تاریخ احمدیت جلد ۳صفحہ ۲۶۵ پر تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ 
پس یمارر کی کیفیت ، علاج ، وفات اور پھر بعدکے تمام واقعات راشد علی اور اس کے پیر کے جھوٹ کوطشت از بام کرتے 
ہیں اوریہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ا طبعی موت تھی جس میں کواو غیر طبعی عوامل کار فرما 
نہیں تھے۔ 
ii :۔آخر الفاظ راشد علی اور اس کے پیر نے ا اختراع یہ بھی کی ہے کہ 
’’ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ی  سکا۔ زبان سے جو آخر الفاظ نکلے وہ یہ تھے۔ ’’ میر صاحب مجھے وبااو ہیضہ ی  گیا ہے۔ 
‘‘ 
یہ ان دونوں کا جھوٹ ہے۔ یہ خود بخود ا جھوٹ تراشتے ہیں اور اسے بڑ بے رمی سے پیش کر دیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال با کے وقت کے تمام حالات اور لمحہ لمحہ کی تفصیلات جماعتِ احمدیہ کی تب  میں درج 
ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر کو پرلے درجہ کا جھوٹا اور فریبی ثابت کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہہ، 
حضرت مسیح موعود علیہ السلا اءت کی تفصیل لکھتے ی ئے فرماتے ہیں۔ 
کی فی 
م کے وصال با کی 
’’ جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنااو دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا ۔ 
’’اللہ ! میرے پیارے اللہ ‘‘ 
اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا۔ 
)یعنی حضرت مرز 
ّ 
صبح کی نماز کا وقت ی ا و اس وقت جبکہ خاکسار مول ا بشیر احمد رضی اللہ عنہ( بھی پاس ھڑاا تھا۔ حیف 
آواز میں دریافت فرمایا 
’’ کیا نماز کا وقت ی  گیا ہے۔ ‘‘ 
ا خادم نے عرض کیا ہاں حضور ی  گیا ہے۔ اس پر آپ نے بستر کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم کے ر میں چھو کر یٹے  یٹے  
ہی نماز کی نیّت باندھی مگر ای  دوران بے ی شی  کی حالت ی  گئی۔ جب ذرا ی  آیا و پھر پوھا ’’ کیا نماز کا وقت ی  گیا ہے۔ ‘‘ 
عرض کیا گیا ہاں حضور ی  گیا ہے پھر دوبارہ نیّت باندھی اور یٹے  یٹے  نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بے ی شی  کی کیفیت طار رہی 
مگر جب ی  آتا تھا وہی الفاظ۔ 
اللہ ! میرے پیارے اللہ 
سنااو دیتے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔ آخر ساڑ دس ے ک کے یب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا دو بے بے سانس 
ء 
ّ 
جاودانی کی خدمت میں پہنچ گئی۔ ان 
ِ 
لئے اور آپ کی روح قفسِ عنصر سے پرواز کر کے اپنے ابد آقا اور محبوب ء الیہ 
ّ 
وان 
۱۱۱ ۔مطبوعہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان ۱۰۳۰ ء( ، راجعون )سلسلہ احمدیہ ۔صفحہ ۱۱۳ 
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں دیکھ کر آپ کے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ یہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے ‘‘ 
یعنی آپ کی ابتداء بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت کے سایہ میں تھی ، باقی زندگی بھی جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے 
گود میں تیر رہا میں مثل طفل شیر خوار 
ای  طرح آپ کی وفات بھی خدا تعالیٰ کے نام پر ہی ی او۔ آپ کی زبان پر ای  کا نام تھا اور ای  کے نام کو زبان پر لے کر 
اس کے حضور حاضر ی  گئے۔ 
اس ابد سچااو کے برخلاف جو بھی کواو دوسر بات کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور جھوٹے  پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے۔ 
سیرت مسیح موعود علیہ السلام 
تصنیف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان۔ 
+ فہرست مضامین 
لای ر کے رؤساء کو دعوت اور حضور کی تقریر 
چونکہ رؤساء ہند بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سار دنیا کے رؤساء دین سے نسبتاً غافل ی تے ہیں، اس لیے آپ نے اُن کو کچھ 
سنانے کے لیے یہ تجوی  فرمااو کہ لای ر کے ا غیر احمد رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت د اور 
دعوتِ طعام میں کچھ تقریر فرمااو۔ تقریر کسی قدر لمبی ی گئی جب گھنٹہ کے یب گزر گیا و ا خص  نے ذرا ھبرااٹ  کا اہارر 
کیا۔ اس پر بہت سے لوگ بول با اُٹھے کہ کھانا و م  روز کھاتے ہیں یکن  یہ کھانا )غذائے روح( و آ جہی میسر ی ا ہے۔ آپ تقریر 
جار رکھیں۔ دو اڑھااو گھنٹہ تک آپ کی تقریر ی تی رہی۔ اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ی  گیا کہ آپ نے اپنا دعویٔ 
نبوت واپس لے لیا۔ لای ر کے اُردو روزانہ اخبارِ عام نے یہ خبر شائع کر د ۔ اس پر آپ نے اُی  وقت اس کی ترد فرمااو اور لکھا 
کہ ہمیں دعویٔ نبوت ہے اور م  نے اسے کبھی واپس نہیں لیا۔ ہمیں صرف اسِ بات سے انکار ہے کہ م  کواو نئی ریعت لائے 
ہیں۔ ریعت وہی ہے جو آحضرتت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔
حضور علیہ السلام کا وصال با 
آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ لای ر تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ی گئی اور چونکہ ملنے والوں کا ا تاتا 
یعنی کوچ کر 
ُ 
ل 
ِ 
حِ 
َ 
ال 
َ 
ُ 
ث 
ُ 
ل 
ِ 
حِ 
َ 
رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا۔ آپ ای  حالت میں تھے کہ الہام ی ا اَل نے کا وقت آگیا 
پھر کوچ کرنے کا وقت آ گیا۔ اس الہام پر لوگوں کو تشویش ی او یکن  فوراً قادیان سے ا مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی 
اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ی گئی یکن  آپ سے جب پوھا گیا و آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے 
ا بہت بڑے خص  کی نسبت ہے، وہ خص  اس سے مُراد نہیں۔ اس الہام سے والدہ صاحبہ نے ھبراا کر ا دن فرمایا کہ لو 
واپس قادیان چلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اَب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اَب اگر خدا ہی لے جائے و جا سکیں ے۔۔ 
مگر باوجود انِ الہامات اور یمارر کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس یمارر ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی یداا 
کرنے کے لیے آپ نے ا لیکچر دینے کی تجوی  فرمااو اور لیکچر لکھنا روع کر دیا اور اس کا نام "پیغام صلح" رکھا۔ اس سے آپ 
کی طبیعت اور بھی مزوور ی  گئی اور دستوں کی یمارر بڑھ گئی۔ جس دن یہ لیکچر ختم ی نا تھا اُس رات الہام ی ا:۔ 
"مکن تکیہ برعمر ناپائیدار" 
یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا۔ آپ نے اُی  وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے۔ دن کو لیکچر 
ختم ی ا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا۔ رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ی  گیا۔ والدہ صاحبہ کو جگایا۔ وہ اُٹھیں و 
کہا کرتا تھا )یعنی 
آپ کی حالت بہت مزوور تھی۔ انہوں نے ھبراا کر پوھا کہ آپ کو کیا ی ا ہے؟ فرمایا وہی جو مَ یمارر موت( 
اس کے بعد پھر ا اور دست آیا۔ اس سے بہت ہی ضعف ی  گیا فرمایا مولو نور الدین صاحب کو بلواؤ )مولو صاحب جیسا 
کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے( پھر فرمایا کہ محمود )مصنف رسالہ ہذا( اور میر صاحب )آپ کے خسر( کو جگاؤ۔ میر 
چارپااو آپ کی چارپااو سے تھوڑ ہی دور تھی۔ مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا و آپ کو کرب بہت تھا۔ کاروں بھی آ گئے تھے انہوں 
نے علاج روع کیا یکن  آرام نہ ی ا۔ آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات د گئیں۔ اس کے بعد آپ سو گئے۔ جب صبح کا 
وقت ی ا اُٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی۔ گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا یکن  بول با نہ سکے۔ اس پر قلم دوات طلب فرمااو یکن  لکھ 
بھی نہ سکے۔ قلم ہاتھ سے چھٹ گئی۔ اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑ دیر تک غنودگی ی  طار ی گئی اور یبیباً ساڑ دس ے ک
دن کے آپ کی روح پاک اُس شہنشاہ حِقیقی کے حضور حاضر ی گئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی سار عمر صرف کر 
نَ۔ یمارر کے وقت صرف ا 
ل 
و 
عِ 
حّ 
ا 
َ 
ر 
ل 
ء الََِ 
َ 
ّ 
انِ 
َ 
و 
ء لِِل 
َ 
ّ 
د تھی انِ ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا۔ 
آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لای ر میں پھیل گئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے د گئیں اور اُی  روز 
شام یا دوسرے دن صبح کے اخبا ہندوتانن کو اس ظیم  اشانن اسانن کی وفات کی خبر 
ُ 
رات کے ذریعہ مل گئی۔ جہاں وہ رافت 
جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی، وہاں وہ خوشی  بھی کبھی نہیں بھلااو جا سکتی جس کا 
اہارر آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا۔ لای ر کی پبلک کا ا گروہ ف گ گھنٹہ کے اندر ہی اس کانن کے سامنے اٹھا  ی  
گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا اور خوشی  کے گیت کر اپنی کورباطنی کا ثبوت دینے لگا۔ بعضوں نے و جیب  جیب  
سوا بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا۔ 
آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال با اس سے علومم ی کتا  ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو 
صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول با کرنے کے لیے و تیار تھے کہ اپنے وااس کو و ختل  مان یں 
یکن  یہ ب اور کرنا انہیں دشوار و ناگوار تھا کہ اُن کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ی  گیا ہے۔ پہلے مسیح کے وااریوں اور 
اس مسیح کے وااریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ و مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر یراان تھے 
اور یہ اپنے مسیح کے وصال با پر ششدر تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور ا نِ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح 
فوت کیونکر ی ا۔ آج سے تیرہ سَو سال با پہلے ا خص  جو خاتم النبیین ی  کر آیا تھا اُس کی وفات پر نہایت سچے دل با سے ا شاعر 
نے یہ صداقت بھرا ی ا شعر کہا تھا کہ 
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِر مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِر ترجمہ: کہ "و میر آنکھ کی پتلی تھا۔ تیر موت سے میر آنکھ اندھی ی گئی۔ اب تیرے بعد کواو خص  پڑا مرا کرے 
ہمیں اُس کی پرواہ نہیں کیونکہ م  و تیر ہی موت سے کر رہے تھے"۔ 
آج تیرہ سَو سال با کے بعد اُس نبیؐ کے ا غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ نہوںں نے اُسے ہچانن لیا تھا 
اُن کا یہ حال با تھا کہ یہ دنیا اُن کی نظروں میں حقیر ی گئی اور اُن کی تمام تر خوشی  اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ
سال با گزر چکے ہیں اُن کا یہی حال با ہے اور خواہ صد بھی گزر جائے مگر وہ دن اُن کو کبھی نہیں بھول با سکتے جب کہ خدا تعالیٰ کا پیارا 
رسول با اُن کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔ 
بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر کے کہیں سے 
درد اسانن کوبیتاب کر دیتا ہے اور مَ کہیں لا  گیا۔ 
نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑ 
ںٹ 
َ 
م دس ے ک آپ فوت ی ئے۔ اُی  وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں ہنچاننے کا 
انتظام کیا گیا اور شام کی ڑ میں ا نہایت بھار دل با کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ی او اور آپ کا الہام پورا 
ی ا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ی  چکا تھا کہ "اُن کی لا کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں "۔ 
بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان ہنچانیا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے )جن 
میں کئی سَو قائم مقام باگز کی جماعتوں کا بھی شامل تھا ( بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولو حاجی نورالدین صاحب 
بھیرو کو تسلیم کر کے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیۃ کی وہ شائع شدہ پیشگواو پور ی او کہ یسے  آحضرتت صلی 
اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ ھڑاے کیے گئے تھے، میر جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ ای  ر میں انتظام فرمائے ۔ 
اس کے بعد خلیفۂ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوہر  کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ)"تانئیس کو 
ا واقعہ ہمارے متعلق"( جو دسمبر 2091 ء میں ی ا اور مختلف اخبارات میں شائع ی  چکا تھا پورا ی ا کیونکہ 12 مئی کو آپ فوت 
ی ئے اور 12 تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ا اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے عنی  واح  کر 
دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا "وقت رسید" یعنی تیر وفات کا وقت آ گیا ہے۔ 
آپ کی وفات پر انگری  و دیسی ہندوتانن کے ب  اخبارات نے باوجود مخالفت کے اسِ بات کا ایبار کیا کہ اسِ زمانہ کے 
آپ ا بہت بڑے خص  تھے۔ 
٭٭٭٭٭ تمت بالخیر ٭٭٭٭٭

Contenu connexe

Plus de muzaffertahir9

Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظام
Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظامIslam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظام
Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظامmuzaffertahir9
 
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزولالٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزولmuzaffertahir9
 
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraq
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraqسچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraq
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraqmuzaffertahir9
 
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےمحمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےmuzaffertahir9
 
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائح
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائحجنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائح
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائحmuzaffertahir9
 
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےmuzaffertahir9
 
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺ
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺshan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺ
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺmuzaffertahir9
 
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امتحدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امتmuzaffertahir9
 
خلافت تاریخ انبیاء کی روشنی میں
خلافت  تاریخ انبیاء کی روشنی میںخلافت  تاریخ انبیاء کی روشنی میں
خلافت تاریخ انبیاء کی روشنی میںmuzaffertahir9
 
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایت
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایتTabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایت
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایتmuzaffertahir9
 
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میںKhatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میںmuzaffertahir9
 
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہ
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہجماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہ
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہmuzaffertahir9
 
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضmuzaffertahir9
 
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیان
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام  آپؑ کی دعاؤں کا بیانشمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام  آپؑ کی دعاؤں کا بیان
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیانmuzaffertahir9
 
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہبلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہmuzaffertahir9
 
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہےہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہےmuzaffertahir9
 
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں)
توہین رسالت کی سزا  (قرآن و سنت کی روشنی میں) توہین رسالت کی سزا  (قرآن و سنت کی روشنی میں)
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں) muzaffertahir9
 
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتیآنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتیmuzaffertahir9
 
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداری
Religious Torrance of Hazrat Muhammad  PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداریReligious Torrance of Hazrat Muhammad  PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداری
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداریmuzaffertahir9
 

Plus de muzaffertahir9 (20)

Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظام
Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظامIslam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظام
Islam ka-iqtasadi-nizam - اسلام کا اقتسادی نظام
 
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزولالٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزول
 
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraq
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraqسچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraq
سچے اور جھوٹے پیغمبر میں فرق Sachay aur-jhotay-peghamber-main-faraq
 
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےمحمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
 
Naqoosh e-zindagi
Naqoosh e-zindagi Naqoosh e-zindagi
Naqoosh e-zindagi
 
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائح
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائحجنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائح
جنرل ضیاء کی ہلاکت اور پاکستانی راہنماؤں کو قیمتی نصائح
 
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے
 
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺ
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺshan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺ
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺ
 
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امتحدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
 
خلافت تاریخ انبیاء کی روشنی میں
خلافت  تاریخ انبیاء کی روشنی میںخلافت  تاریخ انبیاء کی روشنی میں
خلافت تاریخ انبیاء کی روشنی میں
 
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایت
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایتTabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایت
Tabligh e-hadayat - تبلیغ ھدایت
 
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میںKhatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں
 
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہ
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہجماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہ
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہ
 
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض
 
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیان
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام  آپؑ کی دعاؤں کا بیانشمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام  آپؑ کی دعاؤں کا بیان
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیان
 
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہبلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ
 
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہےہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے
 
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں)
توہین رسالت کی سزا  (قرآن و سنت کی روشنی میں) توہین رسالت کی سزا  (قرآن و سنت کی روشنی میں)
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں)
 
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتیآنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
 
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداری
Religious Torrance of Hazrat Muhammad  PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداریReligious Torrance of Hazrat Muhammad  PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداری
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداری
 

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر اعتراض کا جواب

  • 1. وفات پر اعتراض کا جواب راشد علی اور اس کا پیر اپنی ’’ بے لگام کتاب‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ ’’موت کا شکنجہ :۔ ’’بالاخر مخالفین کی ہزرہ سرائیوں سے تنگ آکر مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کی کہ اگر جھوٹے فتری ہیں و اللہ تعالیٰ انہیں ہیضہ اور طاعون سے موت دے دے۔ چنانچہ یہ دعا مقبول با بار ہ ای د ی او اور ا سال با بھی گزرنے نہ پایا کہ مرزا صاحب بآد حسرت ویاس اپنی منہ مانگی موت یعنی ہیضہ کا شکار ی کر چل بسے۔ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ی سکا۔ زبان سے جو آخر الفاظ نکلے وہ یہ تھے ’’ میر صاحب )مرزا صاحب کے خسر( مجھے وبااو ہیضہ ی گیا ہے۔ ‘‘) )حیاتِ ناصر مرتبہ شیخ یعقوب علی قادیانی صفحہ ۱۱۱ یہ بھی حسبِ معمول با راشد علی اور اس کے پیر کی خیرہ سر ہے جو انہیں بار بار جھوٹ کی لعنت کا مورد بناتی ہے۔ i:۔ وصال با کا سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس درد اور کرب کے ساتھ اسلام پر حملوں کے دفاع میں مصروف تھے۔ اس کے لئے دن رات کی علمی محنتِ شاقّہ ، آرام میں کمی اور غذا کی طرف سے لاپرواہی کے نتیجہ میں آپ کو اصابی مزوور کی وجہ سے اسہال با کا مرض اکثر ی جاتا تھا ۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جس صبح حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی وفات ی او ہے اس سے ملحقہ کئی دن ی کہ وفات سے بیس گھنٹے قبل بھی ّٰ حت آپ مسلسل دن رات تحریر وتقریر میں مصروف رہے آپ نے لای ر میں صاحبِ علم افراد کے سامنے ا طویل تقریر فرمااو ۔اس کی وجہ سے آپ کو اصابی مزوور لاحق ی او پھر رات کو ای وجہ سے ور کا بھی تعلق ُ اسہال با بھی آئے۔ اس کیفیت کا ہیضہ سے د نہیں۔ نہ ہی روایات میں کاروںوں کی طرف سے اس کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی صرف ا روایت ہے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مکذ بین ایسے ر میں پیش کرتے ہیں کہ گویا آپ کی وفات کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے دعوّٰ میں صادق نہ تھے۔
  • 2. حقیقتِ حال با یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ واقعۃً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وبااو ہیضہ ی گیا تھا بالکل غلط بات ہے۔ اس فقرے کا مطلب و صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میر صاحب سے استفسار کیا کہ ’’ مجھے وبااو ہیضہ ی گیا ہے ؟ ‘‘ اور محض پوچھنے کا مطلب گزگز یہ نہیں ی تا کہ واقعۃً وہ بات ی بھی گئی ی ۔ ایسی حالت میں جبکہ اصابی مزوور ی اور اس کی وجہ سے اسہال با کی مرض بھی لاحق ی و نقاہت بے حد بڑھ جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے حالت دِگر گوں ی و تاث ر خص سے یہ وع رھنا کہ اس کے ذن میں ا حت مند خص کے حت مند ذن کی طرح گز بات پور تفصیلات کے ساتھ مستحضر ی ، انصاف کے خلاف ہے۔ چنانچہ آحضرتت صلى الله عليه وسلم پر بھی ا مرض کی وجہ سے ایسا وقت آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ ی وما ہفعل لش یفعل ا ّ ل الیہ ان ی ّ خ لت ّ ان )بخار ۔ کتاب بدء الخلق ۔ باب فی ابلیس وجنودہ ( ترجمہ :۔ آپ کو خیال با گذرتا تھا کہ آپ نے گویا کواو کام کیا ہے حالانکہ آپ نے ایسا کیا نہ ی تا تھا۔ )یہاں خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ حضرت امام بخار اس حدیث کو ابلیس اور اس کے لشکر کے باب میں لائے ہیں۔ شا نظرِ کشفی میں انہیں ان لوگوں کا علم ی گیا ی کہ ابلیس اور اس کے چیلے کون ہیں۔( پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ا ایسے فقرہ پر راشد علی اور اس کے پیر کا بغلیں بجانا بعینہ ای طرح ہے جس طرح آحضرتت صلى الله عليه وسلم کے بعض ری عوارض پر تشرقین ن نے اہزاءاء ے ہ ہیں۔ اس فقرے میں ’’ وبااو ہیضہ ‘‘ کا ذکر ہے۔ جبکہ تاریخی ریکارک شاہد ہے کہ اپریل ، مئی ۱۰۹۱ ء میں پنجاب میں یہ وبا تھی ہی نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی تاریخی ریکارک سے ثابت ہے کہ لای ر میں اس وجہ سے کواو موت نہیں ی او تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی ہیضہ کی کواو علامت موجود نہ تھی ۔اس لئے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معالج م جر ڈ کاروں در لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج م لای ر نے آپ کی وفات کے سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا کہ آپ کی وفات اصابی ِ س اسہال با کی یمارر سے
  • 3. ی او ہےدرلینڈ کی ِ ءء اور کاروں آپ کے معالج م تھے یا ارد گرد تھے وہ ب کاروں س ۔ چنانچہ اس وقت تنے بھی ابّ رائے سے تفق تھے کیونکہ ا س کے علاوہ سچااو اور تھی ہی کواو نہیں۔ جار کیا اس میں اس نے تحریراً یہ تصدیق کی ی فی کی ٹ ٹ م سِول با سرجن لای ر نے جو سر ھ گ ّ ی ّ کن ای طرح کاروں کہ مرزا صاحب کی وفات عام اسہال با کی شکایت سے ی او ہے ۔ اس اسہال با کی وجہ اصابی مزوور تھی نہ کہ ہیضہ۔ اس پر مز گواہی کے سامان خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمائے کہ جب آپ کی نعش مبارک ،قادیان لے جانے کے لئے لای ر کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی اور ڑ میں رکھی گئی و راشد علی اور اس کے پیر کی ماش کے لوگوں نے محض ر یداا کرنے کے لئے یہ جھوٹی شکایت اسٹیشن ماسٹر کے پاس کی کہ مرزا صاحب ہیضہ کی وجہ سے فوت ی ئے ہیں۔ چونکہ وبااو مرض کی وجہ سے ہیضہ سے وفات پانے والے کو دوسرے شہر لے جانا قانوناً منع تھا اس لئے اسٹیشن ماسٹر نے نعش ھجواانے سے انکار کر دیا ۔اس دکھایا و پھر اسٹیشن ماسٹر کو ی فی کی ٹ ٹ کے ا صحای ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے سِول با سرجن کا سر ؑ پرآپ حقیقتِ حال با کا علم ی ا کہ یہ شکایت کرنے والے کہ حضرت مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ی او ہے ، جھوٹے ہیں۔ چنانچہ اس نے اجازت د اور آپ کی نعش مبارک قادیان لااو گئی۔ یہ ب واقعات تاریخ احمدیت جلد ۳صفحہ ۲۶۵ پر تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ پس یمارر کی کیفیت ، علاج ، وفات اور پھر بعدکے تمام واقعات راشد علی اور اس کے پیر کے جھوٹ کوطشت از بام کرتے ہیں اوریہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ا طبعی موت تھی جس میں کواو غیر طبعی عوامل کار فرما نہیں تھے۔ ii :۔آخر الفاظ راشد علی اور اس کے پیر نے ا اختراع یہ بھی کی ہے کہ ’’ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہ ی سکا۔ زبان سے جو آخر الفاظ نکلے وہ یہ تھے۔ ’’ میر صاحب مجھے وبااو ہیضہ ی گیا ہے۔ ‘‘ یہ ان دونوں کا جھوٹ ہے۔ یہ خود بخود ا جھوٹ تراشتے ہیں اور اسے بڑ بے رمی سے پیش کر دیتے ہیں۔
  • 4. حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال با کے وقت کے تمام حالات اور لمحہ لمحہ کی تفصیلات جماعتِ احمدیہ کی تب میں درج ہیں جو راشد علی اور اس کے پیر کو پرلے درجہ کا جھوٹا اور فریبی ثابت کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلا اءت کی تفصیل لکھتے ی ئے فرماتے ہیں۔ کی فی م کے وصال با کی ’’ جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنااو دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا ۔ ’’اللہ ! میرے پیارے اللہ ‘‘ اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا۔ )یعنی حضرت مرز ّ صبح کی نماز کا وقت ی ا و اس وقت جبکہ خاکسار مول ا بشیر احمد رضی اللہ عنہ( بھی پاس ھڑاا تھا۔ حیف آواز میں دریافت فرمایا ’’ کیا نماز کا وقت ی گیا ہے۔ ‘‘ ا خادم نے عرض کیا ہاں حضور ی گیا ہے۔ اس پر آپ نے بستر کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم کے ر میں چھو کر یٹے یٹے ہی نماز کی نیّت باندھی مگر ای دوران بے ی شی کی حالت ی گئی۔ جب ذرا ی آیا و پھر پوھا ’’ کیا نماز کا وقت ی گیا ہے۔ ‘‘ عرض کیا گیا ہاں حضور ی گیا ہے پھر دوبارہ نیّت باندھی اور یٹے یٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بے ی شی کی کیفیت طار رہی مگر جب ی آتا تھا وہی الفاظ۔ اللہ ! میرے پیارے اللہ سنااو دیتے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔ آخر ساڑ دس ے ک کے یب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا دو بے بے سانس ء ّ جاودانی کی خدمت میں پہنچ گئی۔ ان ِ لئے اور آپ کی روح قفسِ عنصر سے پرواز کر کے اپنے ابد آقا اور محبوب ء الیہ ّ وان ۱۱۱ ۔مطبوعہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان ۱۰۳۰ ء( ، راجعون )سلسلہ احمدیہ ۔صفحہ ۱۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں دیکھ کر آپ کے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ یہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے ‘‘ یعنی آپ کی ابتداء بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت کے سایہ میں تھی ، باقی زندگی بھی جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔
  • 5. ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیر رہا میں مثل طفل شیر خوار ای طرح آپ کی وفات بھی خدا تعالیٰ کے نام پر ہی ی او۔ آپ کی زبان پر ای کا نام تھا اور ای کے نام کو زبان پر لے کر اس کے حضور حاضر ی گئے۔ اس ابد سچااو کے برخلاف جو بھی کواو دوسر بات کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام تصنیف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان۔ + فہرست مضامین لای ر کے رؤساء کو دعوت اور حضور کی تقریر چونکہ رؤساء ہند بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سار دنیا کے رؤساء دین سے نسبتاً غافل ی تے ہیں، اس لیے آپ نے اُن کو کچھ سنانے کے لیے یہ تجوی فرمااو کہ لای ر کے ا غیر احمد رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت د اور دعوتِ طعام میں کچھ تقریر فرمااو۔ تقریر کسی قدر لمبی ی گئی جب گھنٹہ کے یب گزر گیا و ا خص نے ذرا ھبرااٹ کا اہارر کیا۔ اس پر بہت سے لوگ بول با اُٹھے کہ کھانا و م روز کھاتے ہیں یکن یہ کھانا )غذائے روح( و آ جہی میسر ی ا ہے۔ آپ تقریر جار رکھیں۔ دو اڑھااو گھنٹہ تک آپ کی تقریر ی تی رہی۔ اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ی گیا کہ آپ نے اپنا دعویٔ نبوت واپس لے لیا۔ لای ر کے اُردو روزانہ اخبارِ عام نے یہ خبر شائع کر د ۔ اس پر آپ نے اُی وقت اس کی ترد فرمااو اور لکھا کہ ہمیں دعویٔ نبوت ہے اور م نے اسے کبھی واپس نہیں لیا۔ ہمیں صرف اسِ بات سے انکار ہے کہ م کواو نئی ریعت لائے ہیں۔ ریعت وہی ہے جو آحضرتت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔
  • 6. حضور علیہ السلام کا وصال با آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ لای ر تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ی گئی اور چونکہ ملنے والوں کا ا تاتا یعنی کوچ کر ُ ل ِ حِ َ ال َ ُ ث ُ ل ِ حِ َ رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا۔ آپ ای حالت میں تھے کہ الہام ی ا اَل نے کا وقت آگیا پھر کوچ کرنے کا وقت آ گیا۔ اس الہام پر لوگوں کو تشویش ی او یکن فوراً قادیان سے ا مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ی گئی یکن آپ سے جب پوھا گیا و آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ا بہت بڑے خص کی نسبت ہے، وہ خص اس سے مُراد نہیں۔ اس الہام سے والدہ صاحبہ نے ھبراا کر ا دن فرمایا کہ لو واپس قادیان چلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اَب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اَب اگر خدا ہی لے جائے و جا سکیں ے۔۔ مگر باوجود انِ الہامات اور یمارر کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس یمارر ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی یداا کرنے کے لیے آپ نے ا لیکچر دینے کی تجوی فرمااو اور لیکچر لکھنا روع کر دیا اور اس کا نام "پیغام صلح" رکھا۔ اس سے آپ کی طبیعت اور بھی مزوور ی گئی اور دستوں کی یمارر بڑھ گئی۔ جس دن یہ لیکچر ختم ی نا تھا اُس رات الہام ی ا:۔ "مکن تکیہ برعمر ناپائیدار" یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا۔ آپ نے اُی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے۔ دن کو لیکچر ختم ی ا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا۔ رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ی گیا۔ والدہ صاحبہ کو جگایا۔ وہ اُٹھیں و کہا کرتا تھا )یعنی آپ کی حالت بہت مزوور تھی۔ انہوں نے ھبراا کر پوھا کہ آپ کو کیا ی ا ہے؟ فرمایا وہی جو مَ یمارر موت( اس کے بعد پھر ا اور دست آیا۔ اس سے بہت ہی ضعف ی گیا فرمایا مولو نور الدین صاحب کو بلواؤ )مولو صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے( پھر فرمایا کہ محمود )مصنف رسالہ ہذا( اور میر صاحب )آپ کے خسر( کو جگاؤ۔ میر چارپااو آپ کی چارپااو سے تھوڑ ہی دور تھی۔ مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا و آپ کو کرب بہت تھا۔ کاروں بھی آ گئے تھے انہوں نے علاج روع کیا یکن آرام نہ ی ا۔ آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات د گئیں۔ اس کے بعد آپ سو گئے۔ جب صبح کا وقت ی ا اُٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی۔ گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا یکن بول با نہ سکے۔ اس پر قلم دوات طلب فرمااو یکن لکھ بھی نہ سکے۔ قلم ہاتھ سے چھٹ گئی۔ اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑ دیر تک غنودگی ی طار ی گئی اور یبیباً ساڑ دس ے ک
  • 7. دن کے آپ کی روح پاک اُس شہنشاہ حِقیقی کے حضور حاضر ی گئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی سار عمر صرف کر نَ۔ یمارر کے وقت صرف ا ل و عِ حّ ا َ ر ل ء الََِ َ ّ انِ َ و ء لِِل َ ّ د تھی انِ ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا۔ آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لای ر میں پھیل گئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے د گئیں اور اُی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبا ہندوتانن کو اس ظیم اشانن اسانن کی وفات کی خبر ُ رات کے ذریعہ مل گئی۔ جہاں وہ رافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی، وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھلااو جا سکتی جس کا اہارر آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا۔ لای ر کی پبلک کا ا گروہ ف گ گھنٹہ کے اندر ہی اس کانن کے سامنے اٹھا ی گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا اور خوشی کے گیت کر اپنی کورباطنی کا ثبوت دینے لگا۔ بعضوں نے و جیب جیب سوا بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا۔ آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال با اس سے علومم ی کتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول با کرنے کے لیے و تیار تھے کہ اپنے وااس کو و ختل مان یں یکن یہ ب اور کرنا انہیں دشوار و ناگوار تھا کہ اُن کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ی گیا ہے۔ پہلے مسیح کے وااریوں اور اس مسیح کے وااریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ و مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر یراان تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال با پر ششدر تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور ا نِ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ی ا۔ آج سے تیرہ سَو سال با پہلے ا خص جو خاتم النبیین ی کر آیا تھا اُس کی وفات پر نہایت سچے دل با سے ا شاعر نے یہ صداقت بھرا ی ا شعر کہا تھا کہ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِر مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِر ترجمہ: کہ "و میر آنکھ کی پتلی تھا۔ تیر موت سے میر آنکھ اندھی ی گئی۔ اب تیرے بعد کواو خص پڑا مرا کرے ہمیں اُس کی پرواہ نہیں کیونکہ م و تیر ہی موت سے کر رہے تھے"۔ آج تیرہ سَو سال با کے بعد اُس نبیؐ کے ا غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ نہوںں نے اُسے ہچانن لیا تھا اُن کا یہ حال با تھا کہ یہ دنیا اُن کی نظروں میں حقیر ی گئی اور اُن کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ
  • 8. سال با گزر چکے ہیں اُن کا یہی حال با ہے اور خواہ صد بھی گزر جائے مگر وہ دن اُن کو کبھی نہیں بھول با سکتے جب کہ خدا تعالیٰ کا پیارا رسول با اُن کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر کے کہیں سے درد اسانن کوبیتاب کر دیتا ہے اور مَ کہیں لا گیا۔ نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑ ںٹ َ م دس ے ک آپ فوت ی ئے۔ اُی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں ہنچاننے کا انتظام کیا گیا اور شام کی ڑ میں ا نہایت بھار دل با کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ی او اور آپ کا الہام پورا ی ا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ی چکا تھا کہ "اُن کی لا کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں "۔ بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان ہنچانیا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے )جن میں کئی سَو قائم مقام باگز کی جماعتوں کا بھی شامل تھا ( بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولو حاجی نورالدین صاحب بھیرو کو تسلیم کر کے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیۃ کی وہ شائع شدہ پیشگواو پور ی او کہ یسے آحضرتت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ ھڑاے کیے گئے تھے، میر جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ ای ر میں انتظام فرمائے ۔ اس کے بعد خلیفۂ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوہر کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ)"تانئیس کو ا واقعہ ہمارے متعلق"( جو دسمبر 2091 ء میں ی ا اور مختلف اخبارات میں شائع ی چکا تھا پورا ی ا کیونکہ 12 مئی کو آپ فوت ی ئے اور 12 تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ا اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے عنی واح کر دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا "وقت رسید" یعنی تیر وفات کا وقت آ گیا ہے۔ آپ کی وفات پر انگری و دیسی ہندوتانن کے ب اخبارات نے باوجود مخالفت کے اسِ بات کا ایبار کیا کہ اسِ زمانہ کے آپ ا بہت بڑے خص تھے۔ ٭٭٭٭٭ تمت بالخیر ٭٭٭٭٭